اگر آپ اپنی ادھیڑ عمر سے پندرہ سال چھوٹے یاجوان نظر آنا چاہتے یا چاہتی ہیں تو کرسی اور پلنگ پر آرام سے بیٹھے رہنے کی عادت کم کیجئے اور تیز چہل قدمی کیلئے آرام دہ جوتے خرید لیجئے۔ یہ تو ایک سرسری سا مشورہ تھا لیکن آپ ورزش کی اہمیت پر جس قدر غور کریں گے اسی قدر آپ اس کی افادیت کے قائل ہو جائیں گے۔ ورزش یوں تو ہر عمر کے لوگوں کیلئے ضروری اور مفید ہے، لیکن چالیس برس سے اوپر کے لوگوں کیلئے یہ ایک لازمی ضرورت بن جاتی ہے۔ ورزش کا مطلب یہی نہیں کہ ڈنٹر پیلے جائیں، بیٹھکیں لگائی جائیں یا بھاری وزن اٹھایا جائے، بلکہ عموماً ہلکی ورزش‘ خاص طور پر کوئی جسمانی کام اور چہل قدمی بہترین قسم کی ورزشیں ہیں۔ لوگ عموماً یہ خیال کرتے ہیں کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی اور جوانی ڈھلتی جاتی ہے انسان کو زیادہ آرام کرنے اور سست رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ بے حرکتی سستی،محنت نہ کرنے اور پیدل نہ چلنے سے اس عمر میں زیادہ نقصانات ہوتے ہیں۔ عموماً روایتی نظریات اور تصورات بھی یہی ہیں کہ آدمی کو جوانی کے بعد زندگی آرام سے گزارنی چاہیے یا یہ کہ آدمی اس عمر میں محنت کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے برعکس زندگی میں کامیاب اور خوش و خرم لوگوں کیلئے زندگی کا یہ زمانہ زیادہ تن دہی‘ محنت اور جسمانی کام کا دور ہوتا ہے۔
لوگ عموماً چالیس سال کی عمر میں جسمانی کام، پیدل چلنے یا ورزش کرنے سے شرماتے ہیں، حالانکہ معاشی حالات چاہے کیسے ہی ہوں، ہر عمر میں اور خاص طور پر جوانی کے اختتام کے عرصے میں بہتر صحت کیلئے زیادہ جسمانی کام، چستی اور پھرتی کی ضرورت ہے۔ اکثر بوڑھے یا ادھیڑ عمر کے لوگ سست روی اور ہر کام میں تساہل کے قائل نہیں ہوتے مگر روایات اور معاشرتی حالات بالعموم انہیں بوڑھے اور کمزور کر دیتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں لوگ ادھیڑ عمر میں زیادہ چست اور پھرتیلے ہو جاتے ہیں اور فارغ وقت میں ورزش اور چہل قدمی یا کسی اور کھیل کود کو ترجیح دیتے ہیں۔
ماہرین صحت کا مشورہ تو ہر عمر کے لوگوں کیلئے یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جسمانی کام، چہل قدمی اور محنت کی جائے لیکن ادھیڑعمر یا بوڑھے لوگوں کو کبھی سماج کے خیالات اور نظریات سے دل برداشتہ ہو کر جسمانی محنت اور ورزش محض شرما کر ترک نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی صورت میں لوگ صحت خراب کرکے دواﺅں کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیںیا پھر بڑھاپے کے ایام اپنی مدد آپ اور پر ہمت زندگی کے بجائے دوسروں کے سہارے عزیز و اقارب کے ہاں یا نرسنگ ہوم میں گزارتے ہیں۔ حالیہ ریسرچ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ عمر کا مطلب بڑھاپا نہیں ہوتا اور اکثر اوقات اسی حصے میں محنت اور ہلکی ورزش زیادہ آسان اور پُرمسرت ہوتی ہے۔ صرف تھوڑی سی مستقل مزاجی اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے اور جوانی کے ڈھلنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ چہل قدمی، جسمانی کام اور ہلکی ورزش کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ اسی ریسرچ سے پتا چلا ہے کہ ورزش سے خلیات کی خستگی اور کمزوری دور ہوتی ہے اور ورزش کی بدولت درازی عمر اور احیائے شباب بھی ممکن ہوتا ہے اس کا ایک واضح سائنسی سبب ہے۔ اگرچہ آکسیجن کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی ضرورت وہی رہتی ہے، لیکن مقدار انجذاب میں عمر کے ساتھ ساتھ کمی ہوتی ہے۔ اگر ورزش یا چہل قدمی نہ کی جائے تو عمر کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی مقدار و حجم میں ہر سال تقریباً ایک فیصد کی کمی ہو جاتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی غیر فعال بوڑھے یا بڑی عمر کے شخص کے جسم کے ہر حصے کو وقت کے ساتھ ساتھ خلیات کو تقویت و تغذیہ بخشنے والی آکسیجن کی کم تر مقداریں مل رہی ہیں۔ بہر حال اگر ایسا شخص سست بیٹھے رہنے کے بجائے چہل قدمی اور جسمانی محنت و کام پر آمادہ ہو کر فعال ہو جائے تو اس کے جسم میں آکسیجن کا انجذاب دوبارہ بڑھ سکتا ہے اور بڑھاپے کے آثار ختم ہو سکتے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگ جسمانی محنت ، ورزش اور چہل قدمی وغیرہ کے ذریعہ سے زیادہ مقدار میں آکسیجن جذب کر سکتے ہیں۔ اس طرح ان کے خلیات میں گہنگی اور کمزوری نہیں آتی اور وہ اپنی عمرسے پندرہ سال کم معلوم ہوتے ہیں۔
ورزش اور چہل قدمی وغیرہ سے قلب کی فعالیت، پھیپھڑوں کی صلاحیت اور خون کی مقدار درست اور صحت مند ہوتی ہے
ورزش سے ادھیڑ عمر کے لوگوںکے اعصاب اور معکوسات (ریفیکسس) چست اور صحت مند رہتے ہیں۔ ان میں بوڑھے لوگوں کے برعکس جوانوں کی طرح فوری ردعمل اورچستی و حرکت برقرار رہتی ہے وہ عضلات کے کام لینے اوران کو حرکت دینے کے درست اور بروقت فیصلے کر سکتے ہیں۔
ہلکی ورزش میں تیز چہل قدمی، کبھی کبھی تھوڑا سا دوڑنا، سیڑھیوں پر چڑھنا، آہستہ آہستہ سائیکل چلانا، گھر کے باغیچے میں کام کرنا اور گھریلو کام نیز چھوٹی موٹی مرمت وغیرہ شامل ہیں۔ ورزش کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے شریانوں میں خون میں چربی (کولیسٹرول) کی مقدار نہیں بڑھتی اورشریانیں صاف رہتی ہیں اور قلب کو آرام ملتا ہے اور بے جا اعصابی دباﺅ اور تناﺅ سے نجات رہتی ہے۔ ہر روز ہلکی ورزش یا پیدل چلنے سے قلب کے امراض کے خطرات حیرت انگیز طور پر کم ہو جاتے ہیں۔ ولندیزی سائنس دانوں کے ایک سروے کے مطابق سب سے زیادہ صحتی خطرات ان لوگوں کو لاحق ہوتے ہیں جو سارا دن بیٹھے رہتے ہیں ان کو دفتر یا گھر میں حرکت اور چلنے پھرنے کا موقع یا ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ لوگ اگر فربہی کی طرف مائل ہیں تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں ہاضمے کی خرابی، گنٹھیا اور قلب کے امراض کے سخت خطرات لاحق ہیں۔ ان میں سے ان لوگوں کو مزید خطرات درپیش ہیں جو دن بھر میں دو گھنٹے کیلئے بھی چلتے پھرتے یا حرکت نہیں کرتے ہیں۔ امراض قلب سے بچنے کیلئے روزانہ کم از کم نصف گھنٹے تک کسی نہ کسی قسم کی ورزش ضرور کرنی چاہیے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 924
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں